فتنۂ ارتداد اور ہماری ذمہ داری،،،
فتنۂ ارتداد اور ہماری ذمہ داری :: مقالہ:
بسم اللہ الرحمن الرحیم ٠وبه نستعن٠امابعد!
آج کی اس تقابلی بزم میں میرے مقالہ کا عنوان ہے،( فتنۂ ارتداد اور ہماری ذمہ داری)
میرا یہ مقالہ تین حصوں پر مشتمل ہے، ارتداد کیا ہے؟ارتداد کے اسباب کیا ہیں ؟حل اور تجاویز :
حضرات گرامی ! موجودہ وقت میں امت مسلمہ جہاں تعلیمی، سماجی ،معاشی، ملکی مسائل اور چیلنجز سے دوچار ہے ،وہیں کئ طرح کے شرور و فتن سے بھی نبرد آزما ہے ،مسائل کی اس قدر بہتات و کثرت ہے ،کہ کبھی ختم ہونے کا نام نہیں لیتے ،اور رہے شرور و فتن تو وہ ہر آئے دن نت نئی شکلوں اور مختلف صورتوں میں نمودار ہو رہے ہیں، اور سادہ لوح لوگوں کے ساتھ ساتھ اب تو تعلیم و ترقی یافتہ لوگوں کو بھی اپنے دام تزویر میں پھنسا رہے ہیں، ان میں خاص طور سے قابل ذکر فتنۂ ارتداد ہے ،جو ان دنوں بہت زیادہ سرخیوں میں ہے، فتنہ تیزی کے ساتھ اپنے بال وپر پھیلا رہا ہے، اور اب تک ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے، اور ابھی بھی خدا ہی جانے کتنے لوگ اس کے دہانے پر ہیں ،خاص طور سے مسلم بچیوں اور عورتوں کو جھوٹی محبت کے جال میں پھنسا کر نہ صرف ان کا ایمان و عقیدہ تباہ و برباد کیا جا رہا ہے، بلکہ ان کی عصمت و ناموس کو بھی تار تار کیا جا رہا ہے ،جو ہمارے لیے بہت ہی زیادہ فکر و تشویش کی بات ہے ،
1: ارتداد کیا ہے؟ ارتداد کا مفہوم دین اسلام سے انکار یا اس سے منحرف ہونا ہے یعنی مسلمان کا اپنے ایمان سے منحرف ہو کر غیر مسلم کے دین کو اختیار کرنا، یا دین اسلام کو چھوڑ دینا ہے ، جبکہ کائنات کے رب کا فرمان ہے ،ومن يبتغ غير الاسلام دينا فلن يقبل منه وهو في الآخرة من الخسرين :جو شخص اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین و مذہب کو اپنائے گا، اللہ کے ہاں اسے قبولیت نصیب نہیں ہوگی اور وہ اخرت میں خسارے میں ہوگا.
محترم حضرات : عالمی حالات کا طائرانہ جائزہ لینے سے یہ بات نہایت ہی اعتماد و وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے، کہ بیسویں صدی کے اوائل اور اس کی نصف میں اٹھنے والی( شدھی تحریک) نے پھر سے سر ابھارا ہے، یا پھر اسی کی کوکھ سے اس فتنۂ ارتداد کا جنم ہوا ہے، جو اسی کے باطل افکار و خیالات اور شدت پسندی نظریات کو اپنائے ہوئے ہے ،
2: فتنۂ ارتداد کے اسباب کیا ہیں؟ اسباب تو بہت ہیں لیکن چند قابل ذکر مندرجہ ذیل ہیں، علم اور دینی تربیت کی کمی، دین کی بنیادی تعلیمات سے لاعلمی ،گھریلو تربیت کی کمی، قرآن و سنت کی غلط تشریح، خواہشات اور آزادی کی خواہش، اخلاقی حدود کا انکار، شدت پسندی اور جبر ، مذہبی شدت پسندی ،مذہبی رواداری کی کمی، انٹرنیٹ اور میڈیا کا اثر، مذہب کے خلاف پروپیگنڈا ،اولاد کی تربیت و اصلاح میں والدین کی کوتاہی، معاشرتی یا اقتصادی فائدے کے لیے دین ترک کرنا، مغربی ثقافت کا اثر، فرقہ واریت اور داخلی جھگڑے، ایمان میں کمزوری اور دنیاوی مسائل، دیگر عقائد اور نظریات کی جانب میلان ، بےجا خرچ والی شادیاں،
یہ سب کھیل اور تماشا اسلام کو پے در پے نقصان پہنچانے اور اس کی جڑوں کو کمزور کرنے کے لیے رچا گیا ہے، تاکہ اس کے ذریعے اسلام کو دنیا بھر میں بدنام کرنے کے لیے اس کی شبیہ کو داغدار کر سکیں ،ایسے فتنوں اور سازشوں کے دور میں اب ہماری ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں،
3: حل اور تجاویز : ان حالات میں ہم مسلمانوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ ہم علمی بنیاد کو مضبوط کریں، قرآن و سنت کی درست تعلیمات کو عام کریں، اعلی اخلاق کا مظاہرہ کریں، خاندان اور سماج میں مثبت تبدیلی لائیں ،نوجوانوں کے شکوک کو سمجھنے اور دور کرنے کی کوشش کریں ، روحانی سکون فراہم کریں، افراد کو اپنے عقیدے پر اعتماد پیدا کرنے کی تربیت دی جائے، مسلمانوں کو اپنی تاریخ اور عظمت کا شعور دیا جائے ، ہر فرد کو اپنے عقیدے کے آزادی دی جائے، تاکہ وہ بغیر کسی خوف کے اپنے عقیدے پر قائم رہ سکے، دین کے حوالے سے سوالات کرنے والے افراد کو مناسب رہنمائی اور مدد فراہم کی جائے،
محترم حضرات: اب ضرورت ہے کہ اس فتنہ کی سرکوبی کے لیے علماء دانشوران امت کمر بربستہ ہو جائیں، اور جس طرح بیسویں صدی کے نصف میں مفتی اعظم ہند اور دیگر علماء ومشائخ اہل سنت نے (شدھی تحریک )کو اپنی دعوت و تبلیغ ، حکمت و موعظت اور قلم و قرطاس کے ذریعے عوام و خواص کے سامنے بیان کیا ، آج ہمیں بھی اپنے اکابر و اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس خطرناک فتنے کے خاتمے کے لیے آگے انا ہوگا، اور اس کے لیے منصوبہ بند کوشش کرنی ہوگی، ورنہ حالات خراب ہوں گے، اور صورتحال مزید بگڑ جائے گی، اللہ تعالی ہم تمام مسلمانوں کو اس فتنے سے محفوظ رکھے، آمین:
Comments
Post a Comment